کہانیاں

آخری فیصلہ


ایک بچے کی کہانی جو اس دنیا میں کچھ کرنا چاہتا تاھ لیکن ہمیشہ تدبیریں الٹی ہو جاتیں ، پھر اس نے ایک دن آخری فیصلہ کیا جو گذشتہ کئے فیصلوں پر بھاری تھا ۔ جس فیصلے پر اللہ میاں بھی کوش ہوتے ہیں اور الٹی تدبیریں سیدھی ہو جاتی ہیں ۔ محمد ندیم اختر کی ایک کہانی جو خصوصی طور پر ماہنامہ گو گو کیلئے ارسال کی گئی ہے ۔


بگیاڑی میدان میں کرکٹ کا کھیل جاری تھا۔ سیون سٹار کرکٹ کلب نے ٹاس جیت کر چاند کرکٹ کلب کو پہلے 
کھیلنے کی دعوت دی تھی ۔ صدام حسین باؤلنگ کرا رہا تھا اور پہلے اوور کی پانچویں گیند پھینکنے کیلئے پر تو ل رہاتھا کہ بیٹنگ پر کھڑے شکیل اخترنے نے شور مچایا ’’وہ دیکھو یاسر نواز کا نیا روپ‘‘ یاسر نواز گلی سے باہر نکل کر ابھی میدان میں پہنچا بھی نہ تھا کہ شور مچ گیا ، میچ رک گیا ، شکیل ، صدام اور محسن یاسر کی جانب لپکے لیکن جعفر جو ان سے عمر میں بڑا اور سیون سٹار کرکٹ کلب کا کپتان بھی تھا، نے ڈانٹ کر سب کو روک دیا کہ اپنا کھیل جاری رکھو ۔ میچ کے بعد یاسر کو دیکھ لینا اور مل لینا وہ کون سا بھاگ جائے گااور سب اپنی اپنی پوزیشن پر لوٹ آئے ۔ یاسر اس سارے مزید پڑھیں 
معاملے سے بے خبر اپنے نئے روپ کے ساتھ خراماں خراماں چلتاہوا باؤنڈری لائن کے ساتھ ہی بیٹھ کر بیچ دیکھنے لگا۔
یہ روپ نگر تھا اور روپ نگر کی گلی نمبر 10 سے باہر کھیل کا میدان تھا جسے بگیاڑی میدان کہتے تھے ، اس میدان کا نام بگیاڑی ہونے کے پیچھے بہت سی داستانیں تھیں ۔ اُ ن میں سے ایک داستان یہ بھی تھی کہ میدان کے سمت مصنوعی جنگل اور جنگل کے وسط میں روپ نگر کا قبرستان اور قبرستان سے آگے پھر ایک طویل جنگل تھا کہا جاتا تھاکہ رات کوجنگل میں سے سور ، گیدڑ اور بگیاڑ نکل کر اس میدان میں گھومتے ہیں اور کسی رات ایک شخص کا گزر اس میدان سے ہوا تو ایک بگیاڑ نے اس آدمی پر حملہ کر دیا اور وہ زخمی ہوگیا جس کے بعد اس میدان کا نام بگیاڑی میدان رکھ دیا اور روپ نگر کی گلی نمبر 10 کے بچے بھی اسی میدان میں کھیلا کرتے تھے ۔ باقی بچے تو معمول کے مطابق اپنا کھیل کھیلتے تھے لیکن ان میں یاسر نوا ز جسے اکثر دوست یاسر میاں بھی پکارتے تھے اور آئے روز انوکھے روپ میں محلے کے دوستوں کے سامنے آتاتھا آج اس نے ناک پر بغیر شیشوں کے عینک لگارکھی تھی اور ہاتھ میں نذیر انبالوی کی کتاب ’’کہانی کیسے لکھی جائے ؟‘‘ کتاب پکڑی ہوئی تھی وہ اتنا عجوبہ تو نہیں لگ رہا تھا لیکن یہ روپ گذشتہ اپنائے گئے روپ سے شریفانہ ضرور تھا پہلے تو یاسر میاں کچھ دیر برے انہماک سے میچ دیکھتے رہے پھر یاسر میاں کی توجہ میچ سے ہٹ گئی اور نذیر انبالوی کی کتاب پڑھنے لگا۔ یاسر میاں کو کوئی خبر نہ تھی کہ میچ ختم ہو چکا ہے اور چاند کرکٹ کلب تین وکٹوں سے میچ جیت چکا ہے اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
’’ارے واہ ۔۔۔! یاسر میاں آج تو انکل منٹو لگ رہے ہو ۔‘‘شکیل کی چہچہاتی ہوئی آواز نے اس کی توجہ کتاب سے ہٹا دی ۔
’’نہیںیار ۔۔۔! کیوں انکل منٹو کو اس انکل نکھٹو کے سامنے شرمند ہ کرتے ہو۔‘‘ صدام نے فوراََ طنز کی ایک اور ضرب لگاتے ہوئے کہا۔ جعفر بھیا بھی اتنی دیر میں یاسر میاں کے قریب پہنچ چکے تھے ۔’’ارے نکمو۔۔۔! کیوں ہمارے یاسر میاں کو تنگ کرنے پر تُلے ہوئے ہو ،اتنے پیارے تو لگ رہے ہیں یاسر میاں ۔۔۔!‘‘ جعفر بھیا کی آواز سن جیسے یاسر کی جان میں جان آگئی ہو ورنہ اسے معلوم تھا کہ شکیل اور صدام اپنی نوک جھونک سے اسکی ناک میں دم کردیں گے ۔
’’جی شکریہ جعفر بھیا ۔۔۔!‘‘ تشکرانہ نظروں سے یاسر نے سر اوپر اٹھا کر جعفر کی طرف دیکھا ۔
’’میاں خیر تو ہے پچھلے ہفتے تو آپکے ہاتھوں میں اشتیاق احمد کا جاسوسی ناول تھا، سر پر ہیٹ اور ناک پر کالے شیشوں والی عینک تھی اور وہ لمبا سا کالا کوٹ بھی تو تھا ، اور آپ کا کہنا تھا کہ مجھے یاسر میاں نہیں میاں جاسوس کہو تو مناسب رہے گا ، لگتاہے جاسوسی کا بھوت اتر گیا اور اس وقت ہاتھ میں پکڑی کتاب بتا رہی ہے کہ میاں جاسوس ، میاں ادیب بننے کے لئے ہمہ تن گوش ہیں ،ویسے یہ اچانک ہمیشہ آپ میں اتنی بڑی تبدیلی کیونکر آجاتی ہے ؟‘‘جعفر بھیا نے پیا ر سے پوچھا
’’میاں جاسوس صاحب اب بولو بھی سہی ہم آپ کے کارنامے سننے کیلئے بے چین ہوئے جارہے ہیں ۔‘‘ یاسر کو خاموش دیکھ کر محسن نے طنزیہ آواز میں اسے مخاطب کیا ۔
’’نکمو۔۔۔! چپ رہو ،کیوں مذاق اڑاتے ہو۔۔۔؟یاسر میاں آپ ہمیں اپنی ایک ہفتے کی کارکردگی بتائیں کہ جاسوسی اور سراغرسانی کے دوران ایسا کیا ہوا کہ آپ نے جاسوس سے ادیب بننے کا اتنا بڑا فیصلہ کرمارا۔جی میاں اب بو لو تو سہی ۔۔۔!‘‘ جعفر بھیا نے یاسر کو پچکارتے ہو ئے کہا ۔ یاسر جعفر بھیا کی بات سن کر تسلی میں نظر آرہا تھا ، اور گلا صاف کرتے ہوئے بولا ۔
’’جعفر بھیا ۔۔۔! میں آپ کی وجہ سے اس میدان میں آتا ہوں کیونکہ ہمیشہ آپ ہی میرا ساتھ دیتے ہیں ۔ میں مانتاہوں کہ میں جاسوس بننا چاہتا تھا لیکن پھر سوچا کہ ابھی عمر کے اُس حصے میں ہوں کہ میں جاسوس نہیں بن سکتا۔‘‘ یاسر نے جھٹ سے کہا اور خاموش ہوگیا۔
’’ اور وہ ۔۔۔؟ وہ بات تو بتاؤ ۔۔۔؟ یار وہ کتے والی بات ۔۔۔!‘‘ شکیل نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا۔
’’ بھئی یاسر میاں یہ کتے کا کیا چکر ہے ؟‘‘ جعفر بھیا نے پوچھا
’’بھیا ۔۔۔! یہ کیا بتائے گا ،بھلا ناکامی کے قصے بھی کوئی بتاتا ہے ۔‘‘شکیل نے جب یاسر کو خاموش دیکھا تو موقع دیکھتے ہی فوراََ طنزیہ لہجے میں بولا ۔
’’وہ یوں ہوا کہ ۔۔۔! بلکہ آپ سب کو یاد ہوگا کہ پچھلے ہفتے کی اخبار میں ایک خبر چھپی تھی کی گلی نمبر 8 کے میدان میں سے کسی انسان کی ٹانگ ملی ہے ۔ تو جناب اصل بات کچھ یوں ہے کہ میدان میں کھیلتے ہوئے بچوں نے اس ٹانگ کو دریافت کیا اسی وقت اتفاق سے یاسر میاں کا گزر بھی ادھر سے ہوا،بچوں کا شور سن کر موقع واردا ت پر پہنچے اور انہی دنوں ہمارے معزز دوست یاسر نواز المعروف میاں جاسوس کو نیا نیا جاسوسی کا شوق ہوا تھا اور انہوں نے اس کی اطلاع فوراََ متعلقہ تھانے پہنچائی ،پہلے بات پولیس تک پہنچی اور پھر اخبار نویسوں تک ۔۔۔!اس کے بعد یوں ہوا کہ پولیس نے ایک دو دن تحقیق کی اور چونکہ موصوف میاں جاسوس نے اطلاع دی تھی اسلئے وہ موقع ملتے ہی سپاہیوں کے ساتھ ہولیتے تھے اور ان کے ساتھ تفتیش کیلئے گھومتے تھے ۔۔۔!یاسر میاں مجھے انہی دنوں ملے تھے اور بہت خوش تھے کہ ابھی تو جاسوسی کا ارادہ ہی کیا تھا کہ ایک بڑا کیس ہتھے لگ گیا اور مجھے بڑے پر جوش انداز میں بتارہے تھے کہ شکیل دعا کر نا کہ یہ کیس حل ہو جائے اور قاتل پکڑا جائے ،جہاں پولیس کیس کا معمہ حل کر رہی ہے وہاں میں بھی اپنی تما م تر قوتوں کے ساتھ قاتل کے پیچھے ہوں ،یاسر میاں نے بتایا کہ اشتیاق احمد کے ایک ناول میں ایسا ہی واقع تھا ، اور اس قتل کی کڑیا ں بھی اسی واقعے سے ملتی جلتی ہیں میں وہ ناول کل لائبریری سے لے آیا تھا اس ناول میں تو قاتل پکڑا گیا تھا اور اللہ نے چاہا تو یہ معمہ بھی میں ہی حل کروں گا اور قاتل پکڑا جائے گااور پھر دیکھنا جاسوسی اور سراغرسانی کی دنیا میں یاسر نام ایک نیا اضافہ ہو گا۔ ‘‘شکیل نے اتنی بات کی اور تھوڑی دیر توقف کے بعد پھر سے بولا ’’ پھر کچھ یوں ہوا۔۔۔! کہ پتا چلا کہ گلی نمبر 8کے میدان سے ملنے والی ٹانگ کسی مقتول کی نہیں ہے بلکہ دس دن پہلے ہونے والی بارش سے قبرستان میں ایک تازہ بنی ہوئی قبر بیٹھ گئی تھی اور رات کو کسی جنگلی جانور نے اس قبر کو مزید اکھاڑ دیا اور اس طرح مردے کے باقی اعضاء تو نہیں بلکہ کسی کتے کے منہ یہ ٹانگ لگی اور وہ اسے میدان میں پھینک گیا ۔ اور میاں جاسوس جو قاتل ڈھونڈ رہے تھے تو وہاں قتل تو ہوا ہی نہیں تھا ۔ اس لیے موصوف دلبرداشتہ ہو کر نئے روپ میں ہمارے سامنے ہیں ۔ ‘‘
’’کیوں یاسر میاں ۔۔۔!شکیل سچ کہہ رہا ہے ؟‘‘ جعفر بھیا نے پوچھا ۔
’’ جی بھیا ۔۔۔! یاسر نے ہاں میں سر ہلایا تو باقی بچوں کے قہقہے فضا میں گونجنے لگے ۔’’لیکن اب دیکھنا میں ایک بڑا ادیب بنوں گا ، کل میں ابو سے کہہ کر یہ کتاب منگوائی ہے جس میں کہانی لکھنے کے لئے تما م باتیں لکھی ہوئی ہیں کہانی لکھتے وقت کن کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے ، یاسر نے نذیر انبالوی کی کتاب ’کہانی کیسے لکھی جائے ؟‘‘ دکھاتے ہوئے کہا اور پھر آپ سب لوگ دیکھیں گے کہ ایک دن میں بہت بڑا ادیب بن جاؤں گا اور جب سب لوگ مجھ سے آٹو گراف لیا کریں گے اور میری کہانی لوگ شوق سے پڑھا کریں گے ، پھر میں شکیل ، صدام اور محسن کو آٹو گراف نہیں دوں گا ، کیوں بھیا ۔۔۔؟ ‘‘ یاسر نے جعفر بھیا کی جانب دیکھا تو جعفر بھیا نے اسے پیار سے دیکھا اور پیٹھ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ ’’ ہاں بہت خوب ۔۔۔! تم ایک بڑے ادیب بن سکتے ہو۔‘‘ اور مغر ب کی اذان سن کر سب لوگ اپنے اپنے گھروں کو چل دیے ، چلتے ہوئے صدام کی آواز آئی کہ اگلی دفعہ ہم یاسر میاں کو ادیب نہیں خطیب بنتے دیکھیں گے ۔‘‘ اور فضا میں سب کے قہقہوں کی آوازیں گونجنے لگیں کیوں کہ سب ہی جانتے تھے کہ ادیب بننے کا بھوت چند دن کا ہوگا ، جو ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے ۔
ایک ہفتہ گز چکا تھا ،پھر وہ میدان تھا ،کرکٹ کا کھیل جاری تھا کہ شور مچا کہ میاں ادیب ، میاں جاسو س ہمارے یاسر میاں آج نئے روپ میں ہمارے سامنے آنے ہی والے ہیں ،شکیل نے گلی سے میدان کی جانب آتے ہوئے یاسر میاں کو دیکھا اور میدان میں کھیلتے ہوئے تما م بچوں کو یاسر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اونچی آواز میں اطلاع دی ۔ اور پھر واقعی ایسا ہی ہوا ، یاسر جو گذشتہ ہفتے بغیر شیشوں کی عینک لگائے ہاتھ میں نذیر انبالوی کی کتاب ’’ کہا نی کیسے لکھی جائے ؟‘ لے کر بڑا ادیب بننے کی خبر دینے آیا تھا آج وہ اس سے یکسر تبدیل تھا ، آج اس کے سر پر پھندے والی ٹوپی ، ناک پر وہ ہی بغیر شیشوں والی عینک اور ہاتھ میں نذیر انبالوی کی جگہ احمد حاطب صدیقی کی نظموں والی کتاب تھی ۔ میچ کے فوراََ بعد تمام بچے یاسر میاں کی جانب لپکے کہ یاسر میاں سے پوچھیں کہ اتنی جلدی اتنی بڑی تبدیلی کیونکر ممکن ہوئی ، جعفر بھیا نے سب کو خاموش رہنے کی تاکید کی تھی کہ آج کوئی بھی یاسر کو طنز کا نشانہ نہیں بنائے گا بلکہ جعفر بھیا خود ہی یاسر سے سب کچھ پوچھیں گے ۔
’’میاں ادیب ۔۔۔! خیر تو ہے آج آپ کچھ زیادہ ہی خوش نظر آرہے ہیں کہیں کہانی تو چھپ گئی اور یہ اتنی پیاری ٹوپی تو آپ کو بہت سجتی ہے ۔‘‘
’’ یاسر جو احمد حاطب صدیقی کی کتاب پڑھ رہا تاتھا ، شفقت بھر لفظ سن کر مسکرایا اور بولا ۔
’’ جی بھیا۔۔۔! اب میں ایک ادیب نہیں بلکہ ایک عظیم شاعر بن چکا ہوں کیوں کہ میں دو دن بڑی محنت سے ایک کہانی لکھی اور اخبار والوں کو ارسال کی لیکن کل کی اخبار میں ناقابل اشاعت میں میرا نام تھا ، مجھے بڑا دکھ ہوا کہ ان اخبار والوں کو مجھ پر تھوڑا سا بھی ترس نہیں آیا کہ میں نے اتنی محنت سے اتنی پیاری کہانی لکھی اور انہوں نے اسے ناقابل اشاعت قرار دیا، میں نے باجی کو بتایا تو انہوں نے کل رات مجھے یہ کتاب دی کہ اسے پڑھو اور تم شاعری کیا کرو، یاسر نے احمد حاطب صدیقی کی نظموں والی کتاب سب کو دکھائی اور جھٹ سے بولا کہ میں نے رات ایک نظم بھی لکھ ماری ہے ، سناؤ۔۔۔؟
’’ جی جی ارشاد فرمائیے ۔۔۔! صدام نے فوراََ کہا تو جعفر بھیا نے مزید کہا کہ ’’ ہاں بھئی اب تو سننا ہی پڑے گی کیوں کہ یقیناًتم اعتراف کرتے ہو کہ عظیم شاعر ہو تو عظیم شاعری ہی کی ہو گی ۔ ‘‘
’’ جی جنا ب میاں شاعر ، شاعر روپ نگر ۔۔۔۔۔۔!اب ارشاد کا ٹوکرا اٹھا بھی لوکہ ایسے کون سے گل ہیں جو ہمارے عظیم دوست نے کھلائے ہیں ۔‘‘ شکیل نے یاسر کو جھنجوڑنے کے انداز میں کہا ۔
’’جی تو پھر سنیے ۔۔۔ارشاد ہے کہ ۔۔۔!
؂یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
اور امی نے بھی سمجھائی نہیں
میں کیسے میٹھی بات کروں
جب میٹھی چیز کھائی نہیں
یہ چاند کیسا ماموں ہے
جب امی کا وہ بھائی نہیں
کیوں لمبے بال ہیں بھالوکے
کیوں اس کی ٹنڈ کروائی نہیں
کیا وہ بھی گند ا بچہ ہے
یا جنگل میں کوئی نائی نہیں
نانی کے میاں تو نانا ہیں
اور دادی کے میاں دادا ہیں
تو پھر باجی کے میاں باجا نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
یہ بات سمجھ میں آئی نہیں
’’ واہ واہ ۔۔۔واہ واہ ۔۔۔واہ واہ ۔۔۔!‘‘داد تھی کہ پورا میدان واہ واہ سے گونج اٹھا ۔
’’ لیکن یہ داد اس شاعر کو دی جارہی ہے جس نے یہ نظم لکھی ہے اور ہم شکر گزار ہیں کہ میاں عظیم شاعر یاسر میاں نے ہمیں یہ نظم سنائی ،‘‘محسن نے یاسر کے ہاتھ سے کتاب لی اور سنائی جانے والی نظم والا صفحہ نکال کر سب کے سامنے کر دیا اور کہا کہ اس نظم کو لکھنے والے یہ داڑھی والے صاحب ہیں ، ،محسن نے کتاب کے ٹائٹل پر بنی تصویر کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا اور یاسر میاں کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے کل رات یہ نظم لکھی ہے ‘‘۔اتنی بات سن کر سب کے قہقہے جاگ اٹھے اور یاسر شرمندہ سا ہو کر کہنے لگا۔
’’ یہ میری نظم ہے اگر میرے خیالات انکل داڑھی والے سے مل گئے ہیں تو اس میں میرا کیا قصور ہے ؟‘‘اور اٹھ کر جلدی سے سب کو کوستا ہو ا یاسر گھر کی جانب چل دیا ۔سب کو پتا تھا کہ اب بھی اتنی بڑی چوری پکڑے جانے پر وہ منع نہیں ہو گا بلکہ اگلے ہفتے یاسر میاں ایک نئے روپ میں ہمارے سامنے ہوں گے ۔ اور پھر ایسا ہی ہوا لیکن ایک ہفتے بعد نہیں بلکہ دو دن بعد یاسر میاں میدان کی جانب چلے آرہے تھے ۔ابھی میچ ختم ہوا ہی تھا کہ یاسر میاں بھی میدان میں پہنچ گئے بڑے سادہ سے ، معصوم سی شکل کے ساتھ ، آ ج ناک پر عینک نہیں تھی ، ہاتھ میں کوئی دیوان بھی نہیں تھا ، سر پر لمبے پھندے والی ٹوپی بھی نہ تھی اور میدان میں پہنچتے ہی سب سے پہلے اونچی آواز میں یاسر کے منہ سے السلام و علیکم ۔۔۔! کی آواز نے سب کو چونکا دیا کیونکہ آج وہ پورے اعتما د میں تھا اور پہلی بار ایسا ہو ا کہ وہ میدان میں آیا اور سب کو السلام و علیکم کہہ کر مخاطب کر رہا تھا ۔
سب بچے یاسر کے گرد بیٹھے تھے اور اس سے پوچھنا چاہتے تھے کہ اب کی بار یاسر میاں کیا بننے کا ارادہ لے کر آئے ہیں ۔جعفر بھیا نے یاسر میاں کے پاس بیٹھتے ہوئے پیار سے پوچھا میاں اب کے کون سا فیصلہ کیا ہے کہ آج ہمارے سامنے لے کر آنے والے ہیں ؟۔
’’ جعفر بھیا ۔۔۔!اب کی بار میں نے آخری فیصلہ کیا ہے کہ اب میں نیک انسان بنوگا۔کیوں کہ کل رات ابو جان بتا رہے تھے کہ اگر دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہو تو اللہ سے رجوع کرو کیوں کہ اللہ میاں کی نظر میں سب سے بہتر انسان وہ ہے جو متقی اور پرہیز گار ہو۔میں نے اس سے پہلے جو بھی فیصلے کیے اس میں اللہ کی رضا شامل نہیں تھی اور میں ناکام ہوتا رہا اب کی بار جو میں نے فیصلہ کیا ہے اس میں اللہ میاں کی رضا شامل ہے ،۔یاسر میاں کے اس آخری فیصلے پر سب خاموش تھے اور سوچ رہے تھے کہ یاسر کا یہ فیصلہ کہ وہ اچھا انسان بنے گا تو سب فیصلوں پر بھاری ہے ، اس فیصلے نے شکیل ، صدام اور محسن سمیت جعفر بھیا کو بھی ہلا کر رکھ دیا تھا کہ یاسر جسے وہ بے وقوف سمجھتے تھے اس نے ان سب سے پہلے اچھا انسان بننے کا فیصلہ کر لیا تھا اور وہ جو اپنے آپ کو ہمیشہ سے عقل مند سمجھتے آئے تھے وہ ایسے بڑے اور نیک فیصلے سے پیچھے رہ گئے تھے اور یاسر جیت گیا تھا ۔ اسی دوران مغرب کی اذان کی آواز گونجی تو یاسر نے اٹھتے ہوئے کہا کہ چلیں نماز کی جانب ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لاؤڈ سپیکر سے آواز آرہی تھی حی الفلاح ۔۔۔حی الفلا ح ۔۔۔اللہ اکبر ۔۔۔اور یاسر سمیت سب کے قدم گھروں کی بجائے مسجد کی جانب تھے ۔
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*







ایک نعرہ 
محمد ندیم اختر 


ایک بچے کی کہانی جسے وطن سے محبت تھی لیکن وہ نہیں جانتاتھا 


گھر میں غل غپاڑہ روز کا معمول تھا وہی چند لمحے سکون کے ہوتے جب جنید سکول گیا ہوتا تھا ورنہ وہی ڈیک پر انڈین موسیقی یا ٹی وی پر فلموں کا مزید پڑھیں 
شور ۔۔۔۔۔۔حشمت علی اپنے کے یہ کرتوت دیکھ کر کڑھتے تھے ۔ 


آج بھی حسب معمول وہی شور تھا۔ 
’’جنید بیٹا! پانی تو لے کر آنا بہت پیاس لگ رہی ہے ۔‘‘حشمت علی نے اپنے پوتے کو آواز دی ۔ 
’’دادا جان ! ایک منٹ شاہ رخ کی بڑی زبردست لڑائی ہورہی ہے وہ دیکھیں کیسے مار رہا ہے اپنے دشمنوں کو ۔۔۔ٹھاہ ۔۔۔ٹھاہ ۔۔۔اف اللہ شاہ رخ کو گولی لگ گئی ۔ اف میرے اللہ شاہ رخ کو بچا لینا ۔ ‘‘جنید بولے چلے جا رہا تھا ۔ 
’’جنید !پانی دے دو پھر فلم دیکھ لینا ۔‘‘دادا جان نے ایک بار پھر آواز دی ۔ 
’’اچھا دادا جان !۔۔۔‘‘جنید نے ناگواری سے کہا اور فریژ ر کی جانب بڑھ گیا ۔ 
جنید پانی لے کر آیا تو بہت افسردہ تھا ۔’’کیا ہوا۔‘‘دادا جان نے پانی کا گلاس پکڑتے ہوئے جنید سے پوچھا ۔ 
’’وہ داد ا جان ! شاہ رخ کو گولی لگ گئی ہے ۔ ایمبولینس آئی اور اسے ہسپتال لے گئی ہے اگر وہ مرگیا تو کالیا کو ن مارے گا جو انڈیا کو تباہ کرنا چاہ رہا ہے ؟‘‘جنید نے افسردگی سے کہا ۔ 
’’یہ کیا بکواس کر رہے ہو ۔۔۔کتنی بار کہا ہے کہ کیبل کا کنکشن کٹوا دو اولاد خراب ہو جائے گی لیکن میرے بیٹے کو کہاں خیال کہ اولاد کس سمت جارہی ہے ۔ اسے تو اپنی دکانداری کا خیال ہے ۔ اگر بچے کو برے کام سے جھڑک دیں تو بہو رانی برا مان جاتی ہیں ۔ زاہد میاں کو بھی اپنی بیوی کی باتیں سچی لگتی ہیں ۔ میرا کسے خیال ہے لیکن میں پھر بھی روکتاہوں ۔ چلو جنید یہ ٹی وی بند کرو اور اپنا ہوم ورک کرو۔ ‘‘داد ا جان نے اتنے غصے سے کہا کہ جنید منہ بسورتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا۔ 
’’اباجان ! یہ کیا آپ ہر وقت جنید کو ڈانٹتے رہتے ہیں ؟بچہ ہے بڑا ہو کر سمجھ جائے گا لیکن آپ ہیں کہ گھر میں بیٹھے ڈانٹنے کے علاوہ کچھ کرتے ہی نہیں ہیں ۔۔۔کبھی ڈیک نہ چلاؤ۔۔۔کبھی ٹی وی بند کردو ۔‘‘کچھ ہی دیر بعد بہورانی اپنے بیٹے کی طرف داری کرنے آگئیں ۔ 
’’بہو!یہ دیکھو تو سہی گولی فلم میں ہیرو کو لگی ہے ۔ انڈیا فلم میں تباہ ہو رہا ہے لیکن افسردہ جنید ہو رہا ہے ۔ بہو یہ ابھی بچہ ہے ،کیا اثر لے گا ۔ میں تو اتنا کہتا ہوں کہ بچے کو اچھی تربیت دو ۔ محب وطن بناؤ۔ پاکستان سے محبت کا درس دو۔ ‘‘
’’ہونہہ! اباجان محب وطن بنو،بڑا ہو گا تو وطن سے محبت خود بخود ہو جائے گی آپ کس وطن کی بات کرتے ہیں اس وطن کی جہاں حکیم سعید جیسے محب وطن گولی کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں ۔‘‘ بہو رانی منہ میں بڑبڑاتی ہوئی باہر نکل گئی ۔ 
حشمت علی نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے آنکھیں بند کرلیں ۔ ہندوستان کی سرزمین 14اگست 1947 کا دور تھا ۔ جب حشمت علی بھی جنید کا ہم عمر ہی تھا۔ جب تقسیم ہوئی ان کا اتنا بڑ اگھر اور خاندان تھا،جب وہ انبالہ کے اس محلے میں سے سارے محلے والوں کے ساتھ رات کی تاریکی میں اپنی جان بچا کر بھاگے تھے لیکن حشمت علی کو اتنا یاد تھا کہ جب وہ پاکستان میں داخل ہوا تو اکیلا تھا ۔ ابا اماں بہن بھائی جانے کہاں کھو گئے تھے ۔ شاہد وہاں وہ ان لوگوں کے ساتھ مارے گئے جن کے خون کی نہریں ہندوؤں نے بہادی تھیں ۔ کوئی بھی نہیں ملا ۔ مہاجر کیمپ میں میاں فرزند نے حشمت علی کو اپنے گلے سے لگایا اور مرتے دم تک اپنی اولاد کی طرح رکھا ۔ 
رات کا کھانا کھاتے ہوئے زاہد نے بات شروع کی ۔ ’’اباجان !جنید ابھی معصوم ہے لیکن آپ ہیں کہ پوتے کو خوش نہیں دیکھ سکتے یہ ہر وقت کا ڈانٹنا بھی اچھا نہیں ہوتا ۔ بچے کی صحت پر برا اثر پڑتاہے ۔ ‘‘
’’بیٹا !میں نے جنید کو کون سا تھپڑ مار دیا ہے ؟صرف اس لئے ڈانٹاتھا کہ ایک تو ہوم ورک کا وقت ہو چلا تھا دوسرا انڈین فلم میں فلم کے ہیرو کو گولی لگی تو جنید اس کا اثر ذہن پر لے رہا تھا ۔ زاہد بیٹا انڈیا فلم میں تباہ ہو رہا تھا اور افسوس جنید کو ہورہا تھا ۔ بیٹا اگر پاکستان کے بچوں کا یہ حال رہا تو پھر پاکستان کو کون بچائے گا۔ ہماری تو امیدیں ہی ان بچوں پر ہیں ،جو میرے ملک کا مستقبل ہیں۔ بہورانی اور تم کیوں نہیں سمجھتے کہ اپنے بچوں کو اچھی تعلیم دو ۔ دین کی تعلیم ۔۔۔وطن سے محبت کی تعلیم ۔۔۔اچھے کام کی شاباش دو۔ انہیں بتاؤ کہ انڈیا کیا ہے اس کے عزائم کیا ہیں ۔ ہندوستان کے باسیوں نے تقسیم کے وقت مسلمانوں پر کیا کیامظالم ڈھائے ۔ بیٹا اپنی اولاد کو بتاؤ کہ وہ ہمارے دوست نہیں ازلی دشمن ہیں ۔حشمت علی زاہد کو سمجھا رہا تھا ۔ ’’بس ۔۔۔ابا جان ! آپ جذباتی ہو رہیں بچہ ہے بڑا ہو گا تو زمانے کے نشیب و فراز کو دیکھتے ہوئے سمجھ جائے گا۔ ‘‘باپ اور بیٹے میں بحث جاری تھی ۔ جنید حیران بیٹھا اپنے دادا ابو کی سچی باتیں سن رہا تھا ۔ حشمت علی سوچ رہا تھا کہ آئندہ سے پوتے کو اس برائی سے منع نہیں کرنا ۔لیکن پھر انہوں نے سوچا کہ اگر میں اپنے پوتے اپنی نسل کو اچھا سبق نہ دے سکا تو میں کیوں کر یقین کرلوں کہ میرے علاوہ کوئی اور شخص میرے پوتے کو بہتر سبق دے گا۔ جو فلاح کا سبق ہوگا۔ جس سبق میں میرے پوتے کی فلاح ہوگی ۔ دین کی فلاح ہوگی اور میرے پیارے وطن کی فلاح ہوگی ۔ 
حشمت علی تین چار دن سے دیکھ رہے تھے کہ گھر میں شور شرابا کم ہو گیا نہ بے ہودہ گانوں کی آواز سنائی دیتی اور نہ انڈین فلموں کا شور سنائی دیتا ۔ تین چار دن سے جنید کارٹون دیکھ رہا تھا یا اپنا ہوم ورک کرتا نظر آیا ۔ جنید کے چہرے پر سنجیدگی بھی نظر آنے لگی تھی ۔ا چانک اتنی بڑی تبدیلی حشمت علی کے لئے حیران کن تھی ۔ حشمت علی کے لئے اپنے پوتے کا رویہ معمہ بن گیا تھا ایک دن جنید اسکول سے آکر کارٹون دیکھ رہا تھا کہ حشمت علی چپکے سے جنید کے پاس جا بیٹھے ۔ 
’’جنید بیٹا! چینل تبدیل کرو شاہ رخ کی فلم لگاؤ ۔ میں بھی آج جنید بیٹے کے ساتھ فلم دیکھوں گا ۔ ‘‘حشمت علی نے معمہ حل کرنے لئے جنید سے دوستانہ ماحول میں بات شروع کی ۔ 
’’دادا ابو! آپ بھی انڈیا کی فلم دیکھیں گے لیکن وہ تو ہمارے دشمن ہیں اف اللہ کتنے گندے ہیں ٹھاہ ۔۔۔ٹھا ہ ۔۔۔میں انہیں مار دوں گا۔ ‘‘جنید نے منہ سے گولیاں چلانے کی آواز نکالی ۔ ’’دادا ابو!آپ بھی اس دن ابوجان سے کہہ رہے تھے کہ انڈیا والے ہمارے دشمن ہیں ۔ ‘‘
ہاں بیٹا۔۔۔!‘‘
’’دادا ابو ! میں نہیں مانتا تھا اور ابو بھی نہیں مان رہے تھے پتہ ہے کیا ہوا ہفتہ والے دن سنی دیول کی ایک فلم لگی ہوئی تھی اس میں پتہ ہے کیا ہوا ۔۔۔سنی دیول نے ہمارے جھنڈے ۔۔۔جیسا ہماری چھت پر لگاہوا ہے ،اس نے اس جھنڈے کو آگ میں جلا دیا اور وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔رام قسم ہم پاکستان کو تباہ کردیں گے ۔۔۔دادا ابو !آپ کو پتہ ہے ہماری کتاب میں کیا لکھا ہے ۔‘‘جنید معصوم لہجے میں بولا ۔ 
’’بیٹا!کیا لکھا ہے آپ کی کتاب میں ۔۔۔‘‘ حشمت علی نے ایک بار پھر دوستانہ لہجے میں پوچھا ۔ 
’’ہمارا سبز ہلالی پرچم ہمارے ملک کی پہچان ہے جو ہمارے اس پرچم کی طرف میلی آنکھ سے دیکھے گا ۔۔۔بچو!اس کی آنکھیں نکال دو۔۔۔کیوں کہ وہ ہمارا دشمن ہے ،دادا ابو! کیا وہ ہمارے وطن کو سچ مچ تباہ کردیں گے ۔اگر ہمار ا ملک تباہ ہو گیا تو ہم دادا ابو کہا ں رہیں گے ؟‘‘جنید بات کرتے ہوئے رو دیا اور حشمت علی نے اپنے پوتے کو اپنے گلے سے لگا لیا ۔ 
’’جنید بیٹا! وہ بکواس کرتے ہیں ۔۔۔وہ جھوٹ بولتے ہیں ۔۔۔وہ کیسے تباہ کریں گے ۔ بیٹا ہمارے وطن کی سرحد پر اس وطن کے بیٹے حفاظت کے لئے ہر وقت تیار کھڑے ہیں ۔بیٹا یہ وطن قائم ہونے کے لئے بنا ہے ۔ تم پڑھو گے ۔۔۔لکھو گے اور بڑے آدمی بنو گے ۔پاکستان کا بچہ بچہ بڑا آدمی بنے گا۔ تم ہی اس وطن کی حفاظت کرو گے تو وہ انڈیا والے تمہارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔۔۔‘‘
حشمت علی جذبات میں آکر جانے کیا کچھ کہہ گئے تھے ان کا معمہ بھی حل ہو گیا تھا۔ جنید کو اپنے دادا ابو کی باتیں سمجھ نہیں آرہی تھیں لیکن وہ اتنا
جانتا تھا کہ دادا ابو سچ کہہ رہے ہیں ،پھر وہ آنسو پونچھتاہوا باہر نکل گیا تو حشمت علی سوچنے لگا کہ جنید چاہے جس ماحول میں بھی پرورش پا رہاتھا لیکن اس کا خمیر اسی پاک مٹی سے اٹھاتھا ۔۔ اس کے بزرگوں نے اسی پاک وطن کی مٹی کو لہو سے سیراب کیا تھا ۔ جنید اسی وطن کی ہواؤں میں سانس لیتاتھا ۔ پھر وہ کیسے محب وطن نہ بنتا ۔ یہ کیسے ہو سکتا تھا وہ اپنے وطن میں سانس لیتا ہو اور اپنے وطن کے دشمنوں کو اپنا دشمن نہ سمجھے ۔ حشمت علی کی آنکھو ں سے دو آنسو نکلے اور پاک وطن کی مٹی میں جذب ہوگئے اور نظریں آسمان کی طرف اٹھ گئیں دو ر کہیں’’ ایک نعرہ‘‘ گونجا ’’پاکستان زندہ باد ۔۔۔پائندہ باد ‘‘۔


***
محمد ندیم اختر
ایڈیٹر: ماہنامہ ’’تعمیر ادب ‘‘ لیہ *’’نونہال اردو سخن ڈاٹ کام‘‘
ہیڈ آفس: آرٹ لینڈ ،گلی گرلز کالج والی ،لیہ روڈ چوک اعظم ،ضلع لیہ 31450
فون:            +92-301-7853797 begin_of_the_skype_highlighting            +92-301-7853797      end_of_the_skype_highlighting      
ای میل:nadeemakhtar_doaba@yahoo.com
ویب سائٹ: www.urdusukhan.com
پوسٹل ایڈریس: سلیم شاہین بک ڈپو،ایم ایم روڈ چوک اعظم ،ضلع لیہ پوسٹ کوڈ 31450





بڑا بازار 
تحریر: محمد ندیم اختر 


ایک زور دار طمانچہ میرے منہ پر پڑا اور میرا ذہن بلکل ماؤف ہو گیا ۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ مجھے ابوجان تھپڑ ماریں گے ۔ بیک وقت کئی خیالات میرے ذہن میں امڈ آئے ۔ 
’’ماشاء اللہ !بہت عزت بنادی ۔میں خاندان بھر میں بہت تعریف کرتا تھا کہ میرا بیٹا لا ئق ہے ،فائق ہے لیکن مجھے نہیں معلوم تھا کہ جسے میں لائق فائق سمجھتا تھا ،وہ یوں پھوہڑ اور نکما نکلے گا۔ تم نے تو خاندان بھر میں میری ناک کٹوا دی۔
مزید پڑھیں 
‘‘ابوجان غصے میں نشتر چلا رہے تھے لیکن میں دنیا و مافیہا سے بالکل بے کبھی ابوجان کو اور کبھی رزلٹ کارڈ کو دیکھ رہا تھا ۔
’’تم نہیں پڑھ سکتے تھے تو مجھے بتا دیا ہو ،میں تمہیں کسی ہنر پر لگا دیتا ۔ آج کل ویسے بھی پڑھائی میں کیا رکھا ہے اور نوکریاں قسمت والوں کو ملتی ہیں ۔ آج جس کے پاس ہنر ہے وہی کامیاب ہے ۔ ‘‘ ابو جان کی آواز غصے میں کانپ رہی تھی ۔ کچھ دیر خاموشی سے کھڑے مجھے گھورتے رہے پھر کمرے سے نکل گئے ۔ میری آنکھوں کے سامنے نمی کی دبیز چادر آگئی ۔ میں بستر پر ہارے ہوئے جواری کی طرح گر گیا اور سوچنے لگا کہ میرے اس مضمون میں نمبر کم کیسے آئے جو میرا پسندیدہ مضمون تھا ۔عجیب بات یہ تھی کہ جس مضمون سے مجھے خدا واسطے کا بیر تھا ،اس میں اچھے نمبر آئے تھے ۔ 
’’ہیلو نومی !کیسا رہا رزلٹ ؟‘‘ آصف کمرے میں داخل ہوا لیکن میری آنکھوں میں آنسو دیکھ کر وہیں ٹھٹک گیا ۔ 
’’کیاہوا نومی ؟‘‘ اس کی حالت دیدنی تھی وہ پریشان کیوں نہ ہوتا ؟ آخر وہ میرا بہتر ین دوست تھا ۔ ہمارا کھیلنا ،کودنا اور پڑھنا اکٹھا تھا ہم ایک دوسرے کے گھر بے تکلفی سے آتے جاتے تھے ۔ ہم دونوں میں بھائیوں سے بڑھ کر پیار تھا ۔
’’نومی !بتاؤ نا ورنہ میں بھی رو پڑوں گا ۔‘‘وہ دھمکی پر اُتر آیا ۔
’’ابو جان نے مجھے تھپڑ مارا ہے ۔‘‘میری آواز بھر اگئی ۔
’’کیوں ؟ تھپڑ کیوں مارا ہے ۔۔۔۔۔۔آخر کوئی وجہ بھی تو ہوگی ؟‘‘
’’انگلش میں نمبر کم آنے کی وجہ سے ناراض ہوئے اور غصے میں ہاتھ چل گیا ۔ اچھا چھوڑو !ابو جان نے مار لیا تو کیا ہوا ؟تم بتاؤ ۔۔۔۔۔۔تمہارا رزلٹ کیا رہا ؟‘‘ میں آنکھوں سے ساون بھادوں کی طرح برستے ہوئے آنسو پونچھ ڈالے اور ہشاش بشاش نظر آنے کی کوشش کرنے لگا ۔ 
’’ارے نومی !وہ نذیر تو پاس ہو گیا ؟‘‘
’’کیا ؟نذیر پاس ہو گیا ؟‘‘ میں چونکے بنا نہ رہ سکا ۔‘‘
’’ایک نمبر کا نکما اور نالائق پاس ہو گیا اور ہم لائق فائق فیل ،یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟‘‘میں نے حیرت سے کہا ۔ 
’’میرا یقین کرو نومی !میں سچ کہہ رہا ہوں ۔‘‘اس کی سنجیدگی کے باعث مجھے یقین کرنا پڑا ۔ اس کے بعد کچھ ادھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد آصف چلا گیا اور مجھے تنہائی درپیش ہوگئی ۔ 
نذیر امیر باپ کا بیٹا تھا ۔ نازو نعم میں پلا تھا ،والدین کے بے جا پیار نے اسے بگاڑ ڈالا تھا ۔ وہ جب نویں میں ہماری کلا میں آیا تھا تو اس وقت اس کی عادات مشکوک تھیں ۔ بات بات پر گالی دینا اس کا شیوہ بن چکا تھا ۔اکثر اوقات وہ اساتذہ سے بھی بدتمیزی سے پیش آتا ۔سر حفیظ نے ایک دفعہ اس کی خوب مرمت بھی کی تھی ۔ دوسرے دن جب وہ اسکول آیا تو اکیلا نہیں تھا ۔ اس کے ساتھ اس باپ بھی آیا تھا ۔ وہ سر حفیظ پر برسے اور اپنے اسٹیٹس کا طعنہ دیا اور دھمکی دی ’’آئندہ میرے بیٹے پر ہاتھ اُٹھا یا تو آپ کے حق میں اچھا نہیں ہو گا ۔‘‘وہ دھمکی دے کر چلے گئے اور سر حفیظ اپنے دفاع میں کچھ بھی نہ بول سکے ۔ بولتے بھی کیسے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ایک اوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے معلم کی استطاعت ہی کیا تھی کہ ایک امیر کے سامنے زبان کھولتے ۔ سر حفیظ جانتے تھے کہ زبان کھولنے کی سزا ٹرانسفر یا ہاتھ دھونے کے مترادف تھی ،شاید سر حفیظ دو وقت کی روٹی کے لئے چپ رہے ۔ یہ شکایت ہیڈ ماسٹر صاحب کے سامنے بھی پہنچی لیکن انہوں نے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا ۔ حالات معمول پر آگئے۔ جیسے تیسے نویں کے امتحان ہوئے اور نذیر لے دے کر پاس ہو گیا ۔ یہ بھی ان دنوں کی بات ہے ۔ میٹرک کے سہ ماہی امتحان ہو رہے تھے اور مطالعہ پاکستان کا پرچہ ہو رہا تھا ۔ سر حفیظ نگرانی پر مامور تھے ۔ میرے ساتھ دوسری قطار میں نذیر بھی پرچہ حل کر رہا تھا ۔ اس کے سامنے کتاب کھلی پڑی تھی ۔ سر حفیظ چو ر نظر وں سے کبھی ہماری جانب اور کبھی کھلی کتاب کی طرف دیکھتے ۔ کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے بولنے سے سب ٹھیک نہیں جائے گا۔
’’سر !نذیر کتاب سے نقل کر رہا ہے اور آپ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘ مجھ سے رہا نہ گیا ۔
’’کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟‘‘سر حفیظ یوں چونکے جیسے انہیں کسی بات کا پتہ تک نہ ہو پھر انہوں نے کتاب چھین لی ،تھوڑا بہت ڈانٹا اور بٹھا دیا ۔میرا بس نہیں چل رہا تھا کہ اُسے سز ا کے طور پر کمرہ امتحان سے باہر نکال دیتا ۔ نذیر میری طرف گھور گھور کر دیکھ رہا تھا ۔ جیسے مجھے کچا چبا جانا چاہتا ہو۔ 
چھٹی کے وقت اسکول کے گیٹ پر نذیر اور اس کے لوفر دوستوں نے میرا راستہ روک لیا۔’’اچھا تو یہ صاحب بہادر سکول کے ٹھیکدار ٹھہرے ہیں ۔‘‘
میں آگے بڑھنا چاہتا تھا لیکن وہ بدستور میرا راستہ روکے کھڑے تھے ۔ ’’ارے ارے میاں ! اتنی بھی کیا جلدی ہے ؟پہلے حساب کتاب تو کر لو۔‘‘ 
اس سے پہلے کہ میں کوئی بات کرتا ،ایک زور دار مکا میرے منہ پر آن پڑا ۔ میرا دماغ گھوم گیا ۔ اس سے پہلے کہ مجھ پر اور زیادہ مکوں اور لاتوں کی بارش ہوتی ،میں نے اپنا بستہ زمین پر پھینک کہ اپنے آپکو ان سے نمٹنے کے لئے با لکل تیار کر لیا۔ اس وقت میرا نظریہ صر ف اور صرف نذیر کو پکڑ کر اس اکیلے کی ٹھکائی کرنا تھی ۔
’’نومی پکڑ لو جانے نہ دینا ۔‘‘ آصف اور میرے ہم جماعتوں کی ملی جلی آواز سن کر میں شیر ہو گیا ۔ اس سے پہلے کہ انہیں کوئی اور موقع ملتا میں نذیر کو پکڑ چکا تھا اور اسکول گیٹ میدان جنگ کی شکل اختیار کر چکا تھا ۔ ہم سب نے مل کر نذیر اور اس کے آوارہ دوستوں کی ایسی ٹھکائی کی کہ انہیں بھاگنے کے سوا کوئی راہ نظر نہ آئی ۔ بعد میں ان کی جرات نہ ہوئی کہ آنکھ اٹھا کر بات کر سکیں ۔ 
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
سالانہ امتحانات میں صرف تین ماہ رہ گئے تھے ۔ ہم دن رات محنت کر رہے تھے لیکن نذیر اور اس کے دوستوں کا وہی حال تھا۔ ایک دن علی الصباح نذیر سے سامنا ہو گیا ۔ 
’’اچھا تو نومی صاحب کتابی کیڑے بنے ہوئے ہیں ۔ ‘‘آج پھر وہ جملہ کسنے سے باز نہ آیا تھا ۔ 
’’نذیر ذرا بات سننا !‘‘غصے کی بجائے میں نرم پڑ گیا تو نذیر میرے پاس چلا آیا ۔ 
’’جی جناب ؟‘‘
’’نذیر اب بھی وقت ہے کہ سدھر جاؤ ۔ بے شک مجھے اپنا دوست نہیں مانتے مگر میں تمہیں اپنا دوست سمجھتا ہوں ۔تم مسلمان ہو ۔ اس ناطے سے تم میرے بھائی ہو ۔ یقین جانو اب بھی وقت کہ تیاری کر لو ورنہ بورڈ میں تمہاری کوئی دھمکی اور سفارش نہیں چلے گی ۔ ‘‘میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا ۔
’’نومی !اپنے مشورے اپنے پاس رکھو ۔ جہاں تک بات بورڈ میں پہنچنے کی ہے ،تو میں تمہیں کہوں گا وہ بڑا بازار ہے ،وہاں سب چلتا ہے ۔ اچھا بھی اور گندا بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔!سمجھ گئے نومی صاحب میں اس بڑے بازار سے سب کچھ خرید سکتا ہوں کیونکہ میرے پاس دولت ہے اور دولت بازار کی کمزوری ہے ۔‘‘وہ میری بات کا جواب دے کر پلٹ گیا ۔ میں اسے جاتے ہوئے انگشت بدنداں دیکھتا رہا اور اس کے کہے ہوئے الفا ظ ’’بڑا بازار‘‘ پر غور کر رہا تھا ۔ 
*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔*
سالانہ امتحانات ہو گئے ۔ رزلٹ آگیا تھا ۔ میں جسے لوگ لائق فائق کہتے تھے ،ایک مضمون میں کم نمبروں کا حقدار ٹھہرا تھا جبکہ نذیر فرسٹ ڈویژن میں پاس ہوا تھا ۔ شاید اس جھوٹے نے سچ ہی کہا تھا کہ بڑے بازار میں سب کچھ بکتا ہے ،اچھا بھی اور گند بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!لیکن میں سوچ رہا تھا کہ آج بڑے بازار کے نام پر جو طمانچہ میرے منہ پر پڑا ہے یہ میرے منہ پر ہی نہیں پورے معاشرے کے منہ پر پڑا ہے ۔
***