مقالہ جات


امن مشن سے باغِ امن تک 
تحریر: محمد ندیم اختر
یہ مقالہ محبوب الہی مخمور کی کتاب ’’امن مشن ‘‘کی تقریب رونمائی شعبہ بچوں کا ادب دعوۃ اکیڈمی اسلام آبا د میں پڑھا گیا۔
اس نے جب یہ کہا انسان امن کا پیامبر ہے تو میں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور کہا کہ ہمارا دین تو ہمیں امن ،محبت اور سلامتی کا درس دیتا ہے ۔
میرے سامنے بیٹھے ہوئے بابا جی بولے کہ بیٹا! جس جدید دور میں آپ دونوں یہ باتیں کر رہے ہواس دور میں توانسان انسان کو گاجر مولی کی طرح کاٹ رہا ہے۔۔۔سوامن گیا بھاڑ میں؛ یہ تو بدترین عہد ہے ۔
بابا جی نے غصے میں ہاتھ میں پکڑی کتاب زور سے اپنے دوسرے ہاتھ پر ماری اور کہنے لگے کہ دیکھا نہیں آپ دونوں نے؟ محبتوں کے سفیر اولیائے کرام کے درباروں کو اڑا دیا جاتا ہے۔،دیکھا نہیں تم دونوں نے کہ کہیں تو عبادت گاہوں میں اپنے رب کی خوشنودی کے متلاشی معصوم شہریوں پر برسٹ مارے جارہے ہیں اور کہیں توہین رسالت کے نام پر کلمہ حق کہنے والوں کو گولیوں سے بھونا جارہا ہے ۔ کہیں انبیاء کے نائبین ہونے کے دعوے دار تما م انسانوں کو نفر ت کے شعلوں سے جلا کر راکھ کرنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کئے ہوئے ہیں ۔
بابا جی پتا نہیں کیوں اتنے غصے میں آگئے تھے۔ ہم نے تو صرف انسان کی بات کی تھی کہ انسان امن کا پیامبر ہے۔ہم نے تو دین اسلام کی بات کی تھی جو امن ،محبت ،یگنانگت،سلامتی کا درس دیتا ہے ۔
ہم ہونقوں کی طرح بابا جی کو دیکھ رہے تھے جو دل کی بھڑاس نکا ل کر خاموشی سے پھر کتاب پڑھنے میں مشغول تھے۔ پھر ٹرین میں خاموشی چھا گئی۔
بابا جی نے سچ کہا تھا۔وہ انسان جو امن کا پیامبر تھا ،وہی خون سے ہاتھ رنگنے میں مشغول ہے۔ دین جو امن ،محبت اور سلامتی کا درس دیتا تھا ،اس دین کے نام لیوا دین کے نام پر کیا کیے جارہے ہیں ۔میری سوچ یکسر بدلتی جارہی تھی ۔ اخبارات چیختے تھے ،نیوز چینلز میں بریکنگ نیوز ایسی دلخراش ہوتی کہ دل دہل جاتا ہے۔ایسے مناظر دیکھ دیکھ کر جی کڑھتا تھااور سوچتا رہتا تھا کہ آخر کون ہو گا جو اس دور میں رہبر بنے گا۔ میرے بچے جو آج بارود کے سائے میں جی رہے ہیں، ان کی ذہنوں پر جو خوف اور ڈر کے سائے کب تک چھائے رہیں گے؟۔۔۔ کون ہو گا جو آہستہ آہستہ ان کے ذہنوں سے خوف اور ڈر کے سائے ختم کرے گا؟
میری سوچیں ابھی ختم نہیں ہوئی تھیں۔ بابا جی کی باتیں ابھی تک میرے ذہن پر ڈیرہ جما کر بیٹھی تھیں ۔ 
ایسے میں امید کی ایک کرن نظر آگئی۔میری سوچ نے کروٹ بدلی ،وہ کرن ایک نہیں کئی کہانیوں کی صورت میں تھی۔نانی اوردادی اماں والی کہانیاں تو ہیبت ناک ہونے ،دیو،جنوں کی ڈراؤنی شکلوں کی منظر کشی کرنے کے باوجود بھی بچوں کو اپنے سحر میں جکڑے رکھتی تھی۔ لیکن آج کے ڈراؤنے دور میں نانی دادی اماں والی کہانیاں جلتی پر تیل ڈالنے کے مترادف ہوسکتی ہیں ۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ اب ڈرے ہوئے بچوں کو امیدوں سے بھری ،جس میں کچھ کر گزرنے کی داستان ہو ،سبق ہو ۔۔۔وہ سنائی جائیں ،وہ پڑھائی جائیں۔سو یہ کام جہاں بہت سے بچوں کے ادیبوں نے کیا وہاں محبوب الہی مخمور نے امن مشن ‘‘جو ایسی ہی کہانیوں کا مجموعہ ہے لکھ کر کیا ۔ محبوب الہی مخمور بیک وقت بہت سی صلاحیتوں کا منبع نظر آتے ہیں ،وہ ایک بچوں کا لکھاری ہونے ساتھ ساتھ ،افسانہ نگار ،ایڈیٹر اور پبلشرز بھی ہیں ۔ میرا ان سے غائبانہ تعارف 2006میں اس وقت ہوا جب ان کی کتاب امن مشن کا پہلا ایڈیشن چھپ کر مارکیٹ میں آیا اسے پہلے میں نے انہیں انوکھی کہانیاں کے ایڈیٹر کے طور پر دیکھا ،لیکن انہیں پڑھنے کا اتفاق مجھے اس دن ہوا جب انہوں نے میرے انٹرنیٹ میگزین ’’نونہال اردوسخن ڈاٹ کام ‘‘کے لئے اپنی کہانی فرض اور قربانی ارسال کی ۔اور پھر پڑھنے کا یہ سلسلہ ایسا استوار ہوا کہ ان کی بیسیوں کہانیاں پڑھ ڈالیں ۔ ان کی کہانیوں کا غالب پہلو ان کا برجستہ انداز تحریر ہے ۔ بچوں کیلئے فکشن ہو یا بڑوں کے لئے افسانہ ہو دونوں شعبوں میں برجستگی اور فطری اندازِ بیان کو اختیار کرتے ہیں ۔ ان کی تحریروں میں امن ،محبت اور سلامتی کا فروغ ملتا ہے ۔
پاکستان جن حالات سے گزر رہا ہے ۔ اس کا بچوں کی نفسیات پر گہرا اثر مرتب ہو ررہا ہے اور قلمکاروں کا یہ اب یہ براہ راست حق بنتا ہے کہ وہ بچوں کی اصلاح اور تربیت جیسے بڑے فریضے کے ساتھ ساتھ امن ،محبت اور سلامتی کا درس دینے والی تحریریں بھی لکھیں ،بامقصد ادب کی بات کریں تو اس دور میں اس سے بڑا مقصد اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ بچوں کے ذہنوں پر اس ہیبت ناک دور کی جو دھول جم رہی ہے اپنی تحریروں کے ذریعے اس دھول کو اڑا دیا جائے ۔ ایسے میں محبوب الہی مخمور کی تحریروں میں یہ بات نمایاں ہے جیسے وہ اپنی ایک تحریر میں ’’باغ امن ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’یاحضرت !میں اس دولت کی مدد سے ویران جگہ جہاں جنگ ہوئی تھی ایک بڑا سا سایہ دار باغ لگاؤں گا تاکہ غریب ،بے سہارا اور مصیبت کے مارے لوگ وہاں آرام سے رہ سکیں ۔ جہاں پر کسی جنگ و جدل کا خطرہ نہ ہو ۔ کوئی سپر پاور نہ ہو سب انسان برابر ہوں اور باغ کے میوے کھا سکیں اور یہ باغ امن کہلائے ‘‘
اگر فن کار باشعور ہے اور لسانی اورفنی شعور رکھتا ہے تو وہ اپنی تحریروں میں نئے خیالات اور نئی سوچ کو پیش کرے ۔ محبوب الہی مخمور کی کتاب امن مشن میں نئے فکر و خیال اور لطیف زبان کا استعمال فنکارانہ سلیقے سے ہوا ہے ۔ ملاحظہ کریں ۔ 
’’گیت سنا کے چڑیا پھر سے اڑ گئی اور غائب ہو گئی نوجوان مرید کی فوراََ آنکھ کھل گئی ۔ اور اسے یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ آسمان اور زمین پر جہاں تک اس کی نظر جاتی تھی پرندے ہی پرندے تھے اور نہ جانے کیا کررہے تھے ۔ کچھ پرندے اپنی چونچوں سے زمین میں باریک سوراخ کر رہے تھے ۔ کچھ اپنی چونچوں سے ان میں سفید بیج گرا رہے تھے اور کچھ پرندے اپنے پروں سے ان سوراخوں کو مٹی سے ڈھک رہے تھے اور پھر یکا یک ساارے پرندے اڑ گئے ایک مرتبہ پھر اندھیرا چھا گیا ۔ اور آندھی آگئی لیکن اس کے بعد عجیب معجزہ نظر آیا ۔ بیجوں سے کونپلیں پھوٹیں ،پودے نکلے اور بڑھتے ہی چلے گئے حتی کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ چمکدار پتوں والے بڑے بڑے گھنے درختوں میں تبدیل ہو گئے ۔ ‘‘
اس پیرا گراف کو پڑھ کر لگتا ہے کہ محبوب الہی مخمور کی کہانیوں میں ایک پہلو ایسا بھی جو بہت کم بچوں کے ادیبوں ہا ں موجود ہو تا وہ پہلو دلچسپی کا ہے ۔ ان کی کہانیوں کا آغاز کسی افسانے کی طرح ڈرامائی ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ کہانی کے شروع میں ہی قاری مکمل طور پر ان کی گرفت میں چلا جاتا ہے اور خاتمے پر مکمل طور پر متحیر ہو کر رہ جاتا ہے ۔ آج یہ کہنا بے جا نہ ہو گا مرزا ادیب ، نظر زیدی ،نذیر انبالوی ،نعیم بلوچ ، ڈاکٹر افتخار کھوکھر ،نعیم بلوچ ،علی اکمل تصور اور دیگر بچوں کیلئے لکھنے والوں کی طرح منفر د مقام رکھتا ہے ۔ 
محبوب الہی مخمور جیسے ادیب جو بچوں کو امن مشن کا سبق دیتے ہیں یقیناًبچے اس سبق کو پڑھ کر یاد کریں گے اور پھر ٹرین میں بیٹھے ہوئے بابا جی کو ایک نئی دنیا جس خوبصورت دنیا جس باغ امن کے وہ بابا جی متلاشی ہیں ان کی تلاش ختم ہو جائے گی اور محبوب الہی مخمور اور ان جیسے امن کے پرچار کرنے والے قلمکار سر اونچا کر کے پاکستان کے سبز ہلالی پرچم کو سلیوٹ ماریں گے اور کہیں گے کہ وہ دیکھو آسمان میں سفید دھدیا رنگ کے فاختائیں اڑ رہی ہیں جو امن کی علامت ہیں ۔
***

No comments:

Post a Comment