کاروان ادب کانفرنس 2013 Karwan -e- Adab Conference

 

1:کاروان ادب کانفرنس کی تصویری جھلیاں

2: کاروان ادب کانفرنس ساہیوال کی رپورٹ: رپورٹ : ضیا ءاللہ محسن 


Ameen Babar Raheem Yar Khan

Dr,Afzal hameen And Nadeem Akhtar

ندیم اختر، ڈاکٹر افضل حمید ،وسیم کھوکھر،اسحاق وردگ ،ناصر ملک ، ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر،عبدالرشید عاصم

ندیم اختر، ڈاکٹر افضل حمید ،وسیم کھوکھر،اسحاق وردگ ،ناصر ملک ، ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر،عبدالرشید عاص

شرکاء کانفرنس

شرکاءکانفرنس


شرکاء کانفرنس






Khawaja Mazhar Sadiqi







Muhammad Nasir Zaidi




ندیم اختر،قاسم گورایہ،حماادلرحمن گورایہ، رانا راشد علی خان


کاشف بشیر کاشف،ندیم اختر،قاسم گورایہ، حمادالرحمن گورایہ، رانا راشد علی خان مہمان خصوصی جناب اختر عباس کے استقبال کے لیےکھڑے ہیں

استقبال

اخترعباس بھیا ایڈیٹر ماہنامہ اردو ڈائجسٹ لاہور



قاسم گورایہ اختر عباس بھیا کو پھولوں کا گلدشتہ پیش کرتے ہوئے
























جناب اختر عباس ایڈیٹر ماہنامہ اردو دائجسٹ لاہور پنڈال میں داخل ہورہے ہیں 









اختر عباس مدیر اردو ڈائجسٹ لاہور کو پنڈال میں داخل ہونے پر ارباب بزمی ویلکم کہتے ہوئے




حاجی لطیف کھوکھر اختر عباس بھیا سے مصافحہ کرتے ہوئے


خواجہ مظہر صدیقی اختر عباس بھیا سے گلے ملتے ہوئے


ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر اختر عباس سے مصافحہ کرتے ہوئے

نامور ناول نگار ،شاعر جناب ناصر ملک اختر عباس بھیا ایڈیٹر اردوڈائجسٹ لاہور سے مصافحہ کرتے ہوئے 







Muhammad Faheem Alam(Chacha Taiz Gam)







Muhammd farooq malik


ضیاء اللہ محسن


Muahammad Arbab Bazmi



Shahzad Atir

Abdullah Nizami

Nadeem Akhtar

Rashid Shah




Imran Suhail Bobi



کاشف بشیر کاشف اپنے پیارے بھانجے ہنی کے ساتھ 

کاشف بشیر کاشف اپنے شرارتی بھانجے ہنی کے ساتھ 





Amir Shahzad


Ch.Ahsan Bari




Shahid Shairazi



Akhtar Abbas

Dr. Muhammad Iftikhar Khokhar

Nasir Malik

Ishaq Wardig

Waseem Khokhar
















Khawaja Mazhar Sadiqi



عبدالجبار صبا





Muhammad Nasir Zadi



Muhammad Qasim Goraya










Muhammad Waseem Khokhar 










Dr.Afzal Hameed






زمرد خان چیف ایگزیکٹو عجوہ انڈسٹریز





عبداللہ نطامی 




Ishaq Wardig

اسحاق وردگ بچوں کا ادب ،مسائل اور ممکنہ حل پر اپنا مقالہ پیش کررہے ہیں



خواجہ مظہر صدیقی،قاسم گورایہ،ندیم اختر، معروف چشتی اور عبداللہ نطامی 







خواجہ مظہر نواذ صدیقی بچوں کا ادب ،مسائل اور ممکنہ حل پر اپنا مقالہ پیش کررہے ہیں 


اختر عباس مدیر اردو ڈائجسٹ لاہور اپنے خصوصی خطاب کے دوران 







ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر اختر عباس مدیر اردو ڈائجسٹ کو کاروان ادب ایوارڈ پیش کرتے ہوئے ساتھ کاشف بشیر کاشف، عبداللہ نظامی ،اور وسیم کھوکھر کھڑے ہیں 




اختر عباس مدیر اردو ڈائجسٹ لاہور ندیم اختر کو کاروان ادب کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر بیسٹ پرفارمنس ایوارڈ دیے رہے ہیں ۔ساتھ وسیم کھوکھر اور عبداللہ نظامی کھڑے ہیں ۔


ختر عباس مدیر اردو ڈائجسٹ لاہور کاشف بشیر کاشف کو کاروان ادب کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر بیسٹ پرفارمنس ایوارڈ دیے رہے ہیں ۔ساتھ وسیم کھوکھر اور 

ختر عباس مدیر اردو ڈائجسٹ لاہور کاشف بشیر کاشف کو کاروان ادب کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر بیسٹ پرفارمنس ایوارڈ دیے رہے ہیں ۔ساتھ وسیم کھوکھر،عبداللہ نطامی ، ندیم اختر اور حمادالرحمن کھوکھر کھڑے ہیں  






















































ناصر ملک ڈاکٹر افتخار کھوکھر کو لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیتے ہوے ساتھ ندیم اختر، وسیم کھوکھر ، خواجہ مظہر صدیقی اور عبداللہ نظامی کھڑے ہیں 


ڈاکٹر محمد افتخٰار کھوکھر معروف ناول نگار امجد جاوید کو یادگاری شیلڈ پیش کررہے ہیں ۔ ساتھ معروف کالم نگار اور شاعر اوصاف شیخ بھی کھڑے ہیں 









Dr.Muhammad Iftikhar khokhar

ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر سابق انچارج شعبہ بچوں کا ادب بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد صدارتی خطاب فرما رہے ہیں 



ندیم اختر کانفرنس کے اختتام کا باقاعدہ اعلان کرتے ہوئے 


بچوں کا ادب : امید کی کرنیں روشن ہیں 

کاروانِ ادب کانفرنس ساہیوال کی دلچسپ روداد ۔۔جہاں ماضی کے بچھڑے قلمکاروں کی بہا ر نے پرانی یادیں تازہ کر دیں 

رپورٹ : ضیاء اللہ محسن
جب سے کمپیوٹر رائزڈ زندگی نے نانی اور دادی کی چٹ پٹی مگر نصیحت آموز کہانیوں کا گلا گھونٹا تب سے بچوں کے ادب کی حالت کسی یتیم سے کم نہیں دکھائی دے رہی ،ماضی میں کتا ب پڑھنے ،بلکہ دیمک کی طرح اسے چاٹنے والے’’ کتابی چہرے ‘‘ قصہ ءِ پارینہ بنتے چلے گئے ۔کچھ لوگ اس تبدیلی کو انٹرنیٹ اور فیس بک کی کارستانی قرار دیتے ہیں ،لیکن کتابی چہروں سے ’’چہرہِٗ کتاب‘‘یعنی فیس بک(facebook)تک کا یہ سفر کچھ حوالوں سے امید افزا ء بھی ہے ۔ کیونکہ ماضی کے دھندلکوں میں کھوجانے والے قلمکارسوشل میڈیا کی بدولت ایک بار پھر تسبیح کے دانوں کی مانند ایک لڑی میں جڑ چکے ہیں ۔چند ماہ قبل انہیں قلمکاروں نے ’’ تقریبِ بہر ملاقات ‘‘ کے عنوان سے روزانہ کی بنیاد پر دوستوں سے اپنی پرانی یادیں تازہ کرنا شروع کیں تو رفتہ رفتہ یہ سلسلہ آگے ہی بڑھتا چلا گیا ۔اس کام کی داغ بیل ڈالنے والے چند’’ مجنوں‘‘جن میں لیہ سے میں جناب عبدا للہ نظامی صاحب (چیف ایڈیٹر تعمیرِ ادب )، ندیم اختر (ایڈیٹر، معروف رائٹر) ، کاشف بشیر کاشفؔ صاحب (جواں ادب ،ساہیوال)اور محمد وسیم کھوکھر (سیالکوٹ)سرِ فہرست ہیں۔ان تمام حضرات نے ناصرف اس کام کا بیڑہ اُٹھایا بلکہ اسے بڑے احسن انداز میں پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا۔بہت عرصے بعد ادبی دنیا میں اس طرح کی سرگرمی کسی معجزے سے کم نہیں ۔
نوے کے عشرے میں بہت سے نامی گرامی ادبی پہلوان ، اور معروف قلمکار خواتین و حضرات حالات کے بحر میں بہتے ہوئے شجرِ ادب سے بکھرے ہوئے پتوں کی مانند الگ ہوتے چلے گئے ،لیکن آج سبھی ادب کے متوالے ایک سوچ ،ایک آئیڈیا اور ایک آواز پر لبیک کہتے ہوئے شمعِ ادب کے گرد پروانوں کی طرح جمع ہوئے تو محسوس ہوا جیسے ماضی ایک بار پھرسے لوٹ آیا ہو ،
در اصل 29 دسمبر 2013ء ساہوال میں ہونے والی’’تقریبِ بہر ملاقات ‘‘ بعنوانِ کاروانِ ادب کانفرنس کا آئیڈیا سامنے آتے ہی ملک بھر کے لکھاریوں کی طرف سے بھر پور جوش وخروش کا مظاہرہ کیا جانے لگا ۔ مشاورت کے ساتھ جلد ہی منیر نیازی مرحوم اور طارق عزیز نیلام گھر کے شہر ساہیوال کو اس مقصد کے لئے منتخب کر لیا گیا ۔گویا اب کاشف بشیرکاشف ؔ ساہیوال کے کندھوں پہ بھاری ذمہ داریاں آن پڑی تھیں ۔
یوں تیرے طلسمات کا اظہار ہوا ہے 
اک خواب میرا نیند سے بیدار ہوا ہے 
ایک ماہ قبل ہی اس تقریب کی تیاریوں کا آغازبڑے جوش و خروش سے ہوچکاتھا ۔مختلف ادیب دوستوں کی طرف سے تعاون کی پیشکش بھی موصول ہونے لگیں۔ جن میں رحمت اللہ بشیر ، عبدا لجبار صبا اور مظہر حسین لاشاری سرِ فہرست ہیں ۔ادھرلکھاری حضرات کئی سالوں بعد ایک دوسرے سے ملنے کے لےئے بے تاب ہوئے جا رہے تھے، جبکہ دوسری طرف کاشف بھائی نے را ت دن ایک کر کے انتظامی امور کو حتمی شکل دینی شروع کر دی ۔عبداللہ نظامی ، ندیم اختر اور وسیم کھوکھر،مسلسل کاشف بشیر کے ساتھ رابطے میں رہے ۔فیس بک پر رازانہ کی بنیاد پر کاشف بھائی نئی اپ ڈیٹس مہیا کرتے رہے ۔کانفرنس سے ایک ہفتہ قبل ساہیوال کا مشہور امپیریل ہوٹل اینڈ گیسٹ ہاؤس اس عظیم مقصد کے لئے منتخب ہوچکا تھا ۔جہاں ادیبوں کی رہا ئش کے لئے جدید کمرے اور خوبصورت کانفرنس ہال موجود تھا۔ تقریب کے انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لئے لیہ سے جناب عبداللہ نظامی اور ندیم اختر صاحب جبکہ سیالکوٹ سے بھائی وسیم کھوکھر دو تین روز قبل ہی کاشف بشیر کے پاس ساہیوال پہنچ چکے تھے۔ 28 یعنی ایک روز قبل ملک بھر سے ادیب حضرات امپیریل ہوٹل ساہیوال میں پہنچنا شروع ہوگئے ۔ عرصہ دراز بعد ایک دوسرے کا دیدار کر کے بعض لکھاری تو باقاعدہ حیران ہوئے جا رہے تھے ۔دسمبر کی ٹھٹھرتی ہوئی رات کو ندیم اختر کی سربراہی میں ساہیوال کی سڑکوں پہ پیدل مارچ کرتے ہوئے تمام رائٹر ز کو قریبی ریسٹورنٹ سے کھانا کھلایا گیا۔ بعد ازاں سب دوست اپنے اپنے کمروں میں جا گھسے ۔ مختلف ادیبوں نے اپنے ہم مزاج ساتھیوں کے ساتھ ہوٹل کے کمروں میں خوب ادبی محفلیں جمائیں۔ شعرو شاعری کا دور ہوا،پرانے قصے دہرائے گئے ، قہقے گونجے اور ماضی کی یادوں سے پردہ اٹھاتا چلا گیا۔ گویا ادیب حضرات کے لئے ایک عید کا سما ں تھا۔رات کو پہنچنے والے اہم لکھاری ساتھیوں میں خواجہ مظہر نواز صدیقی ،جناب امجد جاوید ،عمران سہیل بوبی ،سعید سعیدی (بزمِ منزل کراچی) ،جناب اسحاق وردگ صاحب (پشاور)، قاسم گورایہ، حماد گورایہ (گوجرانوالہ) ، شاہد انور شیرازی (مردان)، اظہر عباس (کوئٹہ )،رانا راشد ، ناصر زیدی ، امین بابر ،عبد الصمد مظفر ،فہیم عالم (چچا تیز گام)، سہیل ہاشمی ، عبد الرشید عاصم ، حاجی لطیف کھوکھر ، عرفات ظہور ، فاروق ملک ، رانا فاروق طاہر اور دیگر بہت سے اہم نام شامل ہیں ۔
29دسمبر کی صبح کاشف بشیر ،ندیم اختر ،عبداللہ نظامی اور وسیم کھوکھر اپنی بھرپور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے خوب تیاریوں میں جُت گئے ، تقریباََ ساڑھے دس بجے تقریب اللہ کے بابرکت نام کے بعد تقریب کا باقاعدہ آغاز لکھاری حضرات کے تعارف سے شروع ہوا ، خواجہ مظہر صدیقی صاحب نے اسٹیج سیکر ٹری کے لئے بن مانگے اپنی خدمات پیش کردی ۔نقابت کے اصولوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے باری باری ہر لکھاری کو اپنے منفرد اور جاندار انداز میں تعارف کے لئے بلانے لگے ۔اتنے میں تقریب کے مہمانِ خصوصی جناب ڈاکٹر افتخارکھوکھر (سابق ڈائریکٹر الدعوہ اکیڈمی شعبہ بچوں کا ادب )بھی تشریف لے آئے ۔ان کے ساتھ اسٹیج پر عبدالرشید عاصم ، ناصر ملک ، اسحق وردگ ، جناب عبد اللہ نظامی اور جناب ڈاکٹر طاہر سراج صاحب (قومی زبان تحریک) موجود تھے ۔ایسے میں تقریب کے دولہا جناب اختر عباس صاحب کانفرنس ہال کے دروازے سے لکھاریوں کے جھرمٹ میں نمودار ہوئے اور مسکراتے ہوئے اسٹیج پر جا پہنچے ۔ ملک بھر سے آئے ہوئے رائٹر ز باری باری اسٹیج پر آکر اپنا مختصر تعارف کروا رہے تھے۔معروف کہانی کار جناب نذیر انبالوی صاحب بوجہ کانفرنس میں شریک نہ ہوسکے ورنہ بہت سے دوستوں کا خیال تھاکہ 
پھولوں کی نمائش میں اگر وہ بھی ہوا تو 
اس بار گلابوں کو بڑی آگ لگے گی 
انتظامیہ کے اہم رکن جناب وسیم کھوکھر صاحب کو دعوت دی گئی تو انہوں نے اپنے تعارف کے بعد اس تقریب کے مقاصد پر مختصر روشنی ڈالی اور ادب کے ساتھ دوبارہ اپناتعلق جوڑنے جیسے نیک ارادوں کا اظہار کیا، اہم ترین میزبان جناب کاشف بشیر صاحب کو دعوتِ خطاب ملی تو انہوں نے پورے اعتماد کے ساتھ سب دوستوں کو ساہیوال آمد پر خوش آمدید کہا اور تقریب کے انتظامی امور پر تبادلہ خیال کے ساتھ انہوں نے بچوں کے ادب پر غیر ملکی ثقافت اور بھارتی کارٹونز کے ہمارے نونہالوں کے ذہن پہ اثرات کو چند الفاظ میں بیان کر کے اپنے جذبات کا اظہار کیا ۔
جناب ندیم اختر نے اپنے تعارف کے بعد کانفرنس کے شرکاء کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کے تعاون پر شکریہ ادا کیا اور مستقبل میں ایسی تقاریب کو جاری رکھنے کے عزم کا اظہار بھی کیا ۔چیف ایڈیٹر تعمیرِ ادب جناب عبد اللہ نظامی صاحب نے اپنے خطاب میں ایسی تقاریب کی ضرور ت و اہمیت بیان کرتے ہوئے اسے فروغِ ادب کے لئے بہترین ذریعہ قرار دیا ۔انہوں نے انتظامی حولے سے تعاون کرنے والے تمام احباب کا شکریہ بھی ادا کیا ۔ 
ایسے میں کھانے اور ظہر کی نماز کا وقت ہوا تو سب دوست کھانے کی میز پہ آدھمکے ، لیکن کہیں بھی سیاسی ضیافتوں کی طرح ’’ٹوٹ پڑنے ‘‘ کے مناظر دیکھنے کو نہیں ملے ۔البتہ کچھ احباب نے کھانے کی میز پر ’’ڈٹ‘‘ کرخوب دادِ شجاعت سمیٹی ۔دوسری نشست میں سیکھنے سکھانے اور ادب سے متعلق اہم گفت و شنید متوقع تھی چنانچہ تمام شرکاء ہمہ تن گوش ہو کر بیٹھے رہے ۔اس مرتبہ نقابت جناب قاسم گورایہ فرما رہے تھے ۔انہوں نے باری باری معزز مہمانانِ گرامی کو اپنے مخصوص انداز میں دعوتِ خطاب دی 
خصوصی خطابات 
جناب اسحٰق وردگ صاحب :
معروف شاعر جناب اسحٰق وردگ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بچوں کے ادب کے مسائل پر سیر حاصل گفتگو کی اوراسی موضو ع پہ ایک عدد مقالہ بھی پیش کیا۔اس کے ساتھ انہوں نے نصابی کتب میں بچوں کے جدید ادب کی شمولیت اوراس معاملے میں خیبر پختونخواہ کا دوسرے صوبوں سے تقابلی جائزہ پیش کیا ۔علاوہ ازیں انہوں نے ایسی تقاریب کو بامقصد بنانے کے لئے لکھاریوں کوبار بار مل بیٹھنے اور عملی جدو جہد کی تلقین بھی کی ۔ بعد ازاں انہوں نے اس خوبصورت تقریب کی انتظامیہ کو کامیاب کانفرنس کے انعقاد پر مبارکباد دی ۔
خواجہ مظہر نواز صدیقی صاحب : 
خواجہ صاحب نے اپنے مخصوص انداز میں ،ماضی،حال اور مستقبل کے بچوں کی عادات و خصائل ،تعلیم و تربیت اور ان کی ضرورت کے علم و ادب پر تفصیلی گفتگو کے ساتھ سائنس و ٹیکنالوجی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی اہمیت پر ایک مدلل جائزہ پیش کیا ۔انہوں نے کہا کہ ماضی میں ایک بچہ والدین سے سیکھتا تھا ،آج اس کے اُلٹ ہورہا ہے ،آج والدین ٹیکنالوجی کے میدان اپنے بچوں سے رہنمائی لے رہے ہیں ،علم و ادب کے میدان میں آج کے جدید دور کا بچہ دنیا کا ہر پوشیدہ راز جاننا چاہتا ہے ۔لہٰذا اس کی تشفی کے لئے ہمیں علمی اور ادبی میدان میں اس کے لیئے موزوں قدم اٹھاناہوگا تاکہ جدید دور کا بچہ مثبت سمت میں اپنا سفر جاری رکھے ۔ 
جناب اختر عباس کے خطا ب سے پہلے ملتان کے لکھاری دوستوں فاروق ملک ،عرفات ظہور اور زبیر ارشد نے خواجہ مظہر صدیقی صاحب کا ادب کے حوالے سے لکھا ہوا ایک خاکہ بڑے خوبصورت انداز میں پیش کیا ۔اس کے ساتھ ہی اخترعباس صاحب کو دعوت دی گئی ۔
جناب اخترعباس صاحب : 
مدیراردو ڈائجسٹ جناب اختر عباس صاحب نے اپنے منفرد اندازِ بیان میں شگفتہ ،سنجیدہ اور تربیتی گفتگو کے ساتھ دلچسپی سے بھرپور باتیں کیں۔ط ماضی کے ’’اختر بھیا‘‘بذلہ سنجی میں کمال رکھتے ہیں، انہوں نے ہمیشہ آگے بڑھنے ،انفرادیت حاصل کرنے اورنئے زمانے کے ساتھ چلنے کی تلقین کی۔ کاروانِ ادب کانفرنس میں مدیر اُردوڈائجسٹ جناب اختر عباس صاحب نے دورانِ خطاب معروف کارٹونسٹ عمران سہیل بوبی کو کھڑا کر کے ان سے استفسار کیا ’’ بوبی ! تم بیس سال قبل بھی بالکل ایسے ہی تھے ‘‘ جواب میں عمران بوبی فوراََ بول اُٹھے ’’ سر !یہ میری ایمانداری ہے ‘‘ بوبی کی اس بات پر محفل کشتِ زعفران بن گئی ۔دریں اثنا ء محفل میں شریک کاشف بشیر کاشف نے اختر عباس کو مخاطب کرتے ہوئے آواز لگائی ’’ سر !پیچھے مُڑ کر دیکھئے ،دیوار پہ بوبی کے کارٹون اپنی بہار دکھا رہے ہیں ، اس بات کا جواب دیتے ہوئے مدیر اردو ڈائجسٹ نے پیچھے دیکھے بغیر ایک عظیم جملہ کہا ’’ میں پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھتا ‘‘ اس جواب پہ ہال تالیوں سے گونج اُٹھا ۔یقیناًسب شرکاء اختر صاحب کے اس جملے میں پنہاں ان کی ترقی کا راز جان گئے ہوں گے۔
بعد ازاں اختر بھیا نیاپنے بیان میں ادبی جمود کی بنیادی وجہ صدیوں پرانے روایتی اندازِ بیاں اور گھِسے پِٹے موضوعات کو قرار دیا ،اور جدید دور میں ترقی پسند اور امید افزاء نتائج پر مبنی اپندازِ تحریر اپنا نے کی تلقین کی ۔اس کے ساتھ انہوں نے چیلینجزقبول کر کے مقابلہ کرنے اور مثبت سوچ کو پروان چڑھانے پر زور دیا ۔علاوہ ازیں اختر صاحب نے انتظامیہ کے کام کی تعریف کرتے ہوئے انہیں شاباش دی کہ جنہوں نے بہت سالوں بعد لکھاریوں کے دوبارہ مل بیٹھنے کا سامان پیدا کیا ۔اس کے ساتھ انہوں نے سینئیر لکھاریوں کو اسی سال صاحبِ کتاب بننے کے مشورے سے بھی نوازا ۔
جناب ڈاکٹر افتخار کھوکھر صاحب : 
الدعوۃاکیڈمی اسلام آباد شعبہ بچوں کاادب کے سابق ڈائریکٹرجناب ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھرصاحب نے عرصہ دراز بعد لکھاری حضرات کو اکٹھا کرنے پرتقریب کی انتظامیہ کوخوب دادوتحسین سے نوازا ۔ علاوہ ازیں انہوں نے بچوں کے ادب پر گفتگو کرتے ہوئے گزشتہ پچاس سال کے ادب پر عمومی جبکہ پچھلے پچیس سال پر خصوصی روشنی ڈالی۔اس موقع پر انہوں نے اپنی کتاب ’’روشنی کا سفر ‘‘کا حوالہ بھی دیا ۔جس میں انہوں نے گزشتہ پچیس سالوں میں ہونے والی تقاریب کو لمحہ بہ لمحہ بیان کرکے اس کے شرکاء کے نام تک لکھ ڈالے ہیں ۔بہر طور ڈاکٹر صاحب کی گفتگو وقت کی مناسبت سے مختصر مگر جامع تھی ۔
کانفرنس کے اختتام پر معزز مہمانانِ کو کاروانِ ادب کی جانب سے شیلڈز پیش کی گئیں علاوہ ازیں تمام شرکاء اور ادیبوں کو بھی اسناد اور شیلڈز سے نوازا گیا ۔لکھاریوں نے ان یادگار لمحات کو اپنے کیمرے کی آنکھ سے محفوظ بنا لیا ۔تمام ادیب ایک دوسرے سے محبتیں بانٹتے ،گلے ملتے ہوئے ایک نئے عزم اور حوصلے کے ساتھ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہوگئے ۔ ادھر کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر جناب عبد اللہ نظامی صاحب ، جناب کاشف بشیر کاشف ، جناب ندیم اختر صاحب اور جناب وسیم کھوکھر صاحب کے چہرے خوشی سے تمتما رہے تھے ۔ آج ان حضرات نے بچوں کے ادب اور ادیبوں کو منزل پر پہنچنے کے لئے نئی راہ دکھائی تھی۔ان حضرات کی خدمت میں ہم یہی الفاظ پیش کر سکتے ہیں کہ 
بڑھتے ہی چلو کہ اب ڈیرے منزل ہی پہ ڈالے جائیں گے 
(ضیا ء اللہ محسن۔ساہیوال)



No comments:

Post a Comment